Total Pageviews

Thursday, April 18, 2013

محمد ادریس مرزا کی تصنیف ‘‘درجہ بہ درجہ’’ کا ایک فوری تآثر تحریر: ظہیر باقر بلوچ





محمد ادریس مرزا نے مزاح کی جو تعریف حسیاتی حوالے سے بیان کی ہے، یعنی روزمرہ کے کام کاج اور بول چال میں سرزد ہوجانے والی حماقتیں یعنی ایک ایسا خلافِ توقع عمل جو پیش آنے والے واقع کے متعلق قاری یا ناظر کے ذہن میں درجہ بہ درجہ ترتیب پانے والے منطقی تسلسل کو ایک ایسی غیر المناک غیر متوقع صورت حال سے دوچار کر دے جس میں کسی نہ کسی وسیلے سے ایک شگفتگی آمیز تحیّر کا پہلو پایا جاتا ہو جو انسان کو ہنسنے، مسکرانے حتیٰ کہ کھلکھلانے تک پر مجبور کر دے، تو اس تعریف کہ جس کی میں نے تشریح کی ہے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں آگے چل کر جو مضامین پڑھنے کو ملیں گے ان میں مزاح کی چاشنی تو ہوگی لیکن طنز شاید نہ نظر آئے۔ لیکن دورانِ مطالعہ جوں جوں قاری آگے بڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے گلاب اور بنفشہ کے اس لب دوز میٹھے شربت میں ہلکے طنز کی تُرشی دھیرے دھیرے شامل ہونا شروع ہو گئی ہے اور شربتِ روح افزا کا جامِ شیریں آہستہ آہستہ سکنجبین حار کا مزا دینے لگتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے غیر متوقع صورت حال خود مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے مزاحیہ مضامین کے زیر نظر مجموعے کے پہلے مضمون کا ابتدائی پیرا بھی ہے۔ ’’محبت ایک سے نہیں ہوتی‘‘ کا آغاز انہوں نے ایک بہت ہی رقت آمیز پیرے سے کیا ہے جس کا آخری جملہ ہی ’’ اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا‘‘ ہے۔ اس پیرا کا مطالعہ کر کے قاری واقعی رونے لگتا ہے کہ اس نے تو کتاب مزاحیہ مضامین کا مجموعہ سمجھ کر خریدی تھی اور پھر اسے اپنی اس ’’حماقت‘‘ پر ہنسی آتی ہے اور پھر کافی دیر تک وہ ہنسنے اور رونے کے درمیانی کیفیت سے دوچار رہتا ہے یہ بات محمد ادریس مرزا کی لسانی چابکدستی کی خوبصورت مثال ہے۔  ’’باعثِ تحریر آں کہ‘‘ کہ ادریس مرزا کا خود نوشت دیباچہ ہے خود خاصے کی چیز ہے۔

’’بہت ممکن ہے کہ اردو زبان و بیان پر دسترس کے حامل ناقدین اور ’’مستند مزاح نگار‘‘ مزاح کے بارے میں کوئی حتمی رائے اختیار کرنے میں با اختیار ہوں۔۔۔‘‘

تنقیدی مضامین کے عمومی روایتی جملوں کی قسم کے اس جملے میں دو لفظ شامل کر کے مصنف نے اسے چار چاند لگا دیے ہیں۔ ابتدا میں ’’بہت ممکن ہے‘‘ اور آخر میں ’’با اختیار ہوں‘‘ لگانے نے اس جملے کو طنز و مزاح کا ایک ایسا حسین مرقع بنا دیا جس میں چھپی طنز کی کاٹ چوتھی قرآت میں دوہرا وار کرتی نظر آتی ہے۔ دیباچہ میں مزاح کو ہشت پرت اصطلاح لکھ کر مصنف نے کم از کم مجھے تو خوف میں مبتلا کر دیا اور سوچا کہ مطالعہِ کتاب کرنے سے پہلے تنقیہ دماغ کر لوں تو بہتر ہے۔ یقیناً درجہ بہ درجہ نامی اس کتاب کی تحریروں میں تہہ دار چٹانوں کی طرح تہ بہ تہ معنوی پرتیں ہوں گی۔ لیکن خیر اطریفل استخدوس کے بغیر ہی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا اور جا بجا یہ احساس ہوتا رہا کہ محمد ادریس مرزا لفظوں کو ان کے ممکنہ معنوی پہلوؤں سمیت ورطہ تحریر میں لانے کا فن خوب جانتے ہیں۔  مجھے ان کی تحریر کا انداز انشائیے کے قریب تر محسوس ہوا جہاں زندگی کے تلخ ترین حقائق کو بھی لطافت کی عینک لگا دیکھا جاتا ہے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم:
‘‘بین کرتی عورتیں

رونقیں ہیں موت کی’’

یاد آ گئی۔ تقریظ میں جناب ارشد ملک نے بالکل بجا کہا ہے کہ ادریس مرزا کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی فرنچ کرسٹل کا گلاس نہیں ست رپٹی گیند ہے نیز مصنف کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ایسا سوچنے سے انسانی دماغ کے خلیے زیریلے مادے کم پیدا کرتے ہیں اور ان کی کیمسٹری خراب نہیں ہوتی۔ اشاعتی ادارہ ملٹی میٖڈیا افیئرز ہے امید ہے کہ اس ادارہ کی اگلی کتاب ملٹی میڈیا میں ہونے والے ‘‘افیئرز’’ پر ہوگی۔ 

Friday, July 8, 2011

ڈھے گیا ہے تیز بارش وچہ مرا کچا مکان ... لوک خوش ہن ایں دفعہ فصلیں کوں بہتر ڈیکھ کے

جس زمین پر خوب ہل چلایا گیا ہو اس پر موسلادھار بارش ہو تو زمین کا دامن بالیدگی سے بھر جاتا ہے۔ خوب اچھی فصل ہوتی ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ اسی موسلادھار اور طوفانی بارش سے کئی لوگوں‌ کے مکان گر جاتے ہیں۔ بارانِ رحمت ان کے طوفان زحمت بن جاتا ہے۔ مجھے سرائیکی کے مشہور شاعر اقبال سوکڑی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
ڈھے  گیا  ہے  تیز  بارش  وچہ  مرا  کچا  مکان
لوک خوش ہن ایں دفعہ فصلیں کوں بہتر ڈیکھ کے
اس غزل کا مطلع کچھ یوں ہے
لوک خوش تھیندن سجن ساون دے منظر ڈیکھ کے
توں نہ رو ترمدی میڈی پپڑیں دی جھالر ڈیکھ کے
اس غزل کو حاجی منصور علی ملنگی صاحب نے کیا خوب گایا ہے۔

Wednesday, July 6, 2011

Writers Rostrum: دوشعر

Writers Rostrum: دوشعر: "مجھ کو کہنی غزل نہ گر آتی تری صورت کسے نظر آتی شش جہت میں ہے تیرا پھیلاؤ کس طرف سے تری خبر آتی ظہیر باقر بلوچ"

.غزل ... مجھ کو کہنی غزل نہ گر آتی

غزل
مجھ کو کہنی غزل نہ گر آتی
تری صورت کسے نظر آتی
شش جہت میں ہے تیرا پھیلاؤ
کس طرف سے تری خبر آتی
چھوٹتی جان اس جھمیلے سے
منزلِ     حاصلِ     سفر     آتی
میں تجھے تھل میں ڈھونڈتا پھرتا
تو  مجھے  سوتا  چھوڑ  کر  آتی
ساری دنیا سے کٹ گیا ہوں میں
یاد  اس  کی  نہ  اس  قدر  آتی
ق
کیا زمانہ تھا تیرے ذکر کے ساتھ
دل   دھڑک  اٹھتا   جان   تھراتی
اب تو خواہش ہے یہ کہ غم میں ترے
کاش   اک   بار   آنکھ   بھر   آتی
ظہیر باقر بلوچ

Friday, June 24, 2011

Writers Rostrum: Classical Saraiki Kafi with visual impressions

Writers Rostrum: Classical Saraiki Kafi with visual impressions: "Famous Classical Saraiki Kafi YAR DADHI ISHQ ATISH Poet: Khawja Ghulam Fareed Kot Mithan Sharif Voice and Music: Muhammad Jumman Visual I..."

Classical Saraiki Kafi with visual impressions

Famous Classical Saraiki Kafi YAR DADHI ISHQ ATISH
Poet: Khawja Ghulam Fareed Kot Mithan Sharif
Voice and Music: Muhammad Jumman
Visual Impressions: Zaheer Baqar Baloch
http://www.youtube.com/watch?v=8rcU_nG_TPk

Monday, June 6, 2011

Writers Rostrum: ریتک روشن نے ایتھن ماسکرینس کا کردار خوب نبھایا ہے...

Writers Rostrum: ریتک روشن نے ایتھن ماسکرینس کا کردار خوب نبھایا ہے...: "ایتھن ماسکرینس کا کردار انتہائی مشکل تھا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ناک پر بیٹھی مکھی بھی نہیں اڑا سکتا وہ سماجی شخصیت بھی ہے ملک بھر میں اس کے چ..."